Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حسن و صحت اور فٹنس کیلئے سدا بہار تجربات 18

ماہنامہ عبقری - جنوری 2014

لباس میں جمال مقصود ہے قرآن حکیم میں لباس کے دو مقاصد بتائے گئے ہیں:’’ یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم و ریشا (اعراف: ۲۶)اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے اور جو خوشنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ریشاً: اس لباس کو کہتے ہیں جو آدمی زینت و جمال کیلئے استعمال کرتا ہے، غور کریں تو صرف ستر چھپانے کیلئے مختصر لباس کافی ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس سے زیادہ لباس اس لئے عطا کیا کہ اس کے ذریعے زینت و جمال حاصل کرسکے اور اپنی ہیت کو شائستہ بناسکے۔ لہٰذا ایک اچھے لباس کی صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ یہ دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ نہ تو ایسا ناقص ہوکہ ستر پوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا کم درجہ کا ہوکہ بجائے زیب و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑ دے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں بے وقعتی پیدا کرے۔ کپڑے پہننے کی مشہورو مسنون دعا میں بھی انہیں دونوں مقاصد کا ذکر ہے کہ تاکہ ہر مسلمان لباس کا شکر ادا کرتے وقت ان مقاصد سے عافل نہ رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو یہ دعا پڑھے: ’’اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ (جامع الترمذی، الدعوات، الرقم: ۳۵۶۰)’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعے میں اپنے ستر چھپائوں اور زینت حاصل کروں۔‘‘ یہ دعا ہر مسلمان کو سمجھاتی ہے کہ نمائش و اسراف سے بچتے ہوئے آسائش و آرائش کی نیت سے عمدہ لباس کا استعمال مقاصد لباس کے عین مطابق اور مستحسن عمل ہے۔ خوش لباسی اور ہمارے اسلاف اس لیے نبی اکرم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، ائمہ مجتہدین اور بزرگان دین اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک زیب تن کیا کرتے تھے۔ بہت سے اکابر حق جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ اور بیش قیمت لباس استعمال کرتے تھے: (1) وقد روی انہ علیہ السلام خرج وعلیہ رداء قیمتہ الف درھم (روح المعانی : ۴/۳۵۲،الاعراف: ۳۲) ترجمہ: روایت کیا گیا ہے کہ ایک موقع پر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اس حال میںکہ آپ ﷺنے ایسی چادر لی ہوئی تھی کہ جس کی قیمت ہزار درہم تھی۔ (2) وعن ابن سیرین: ان تمیما الداری اشتری رداء بالف وکان یصلی فیہ ‘‘ (مجمع الزوائد ، الطب، باب اظہار النعم:۲/۲ ۳۱)ترجمہ: حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ نے ایک چادر ہزار درہم میں خریدی تھی اور آپ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ (3) عن نافع ان ابن عمر ربما لبس المطرف الخزثمنہ خمس مائۃ درہم (شعب الایمان، الباب فی المطاعم، فصل فیما کان متوسعا: رقم: ۵۹۴۳)ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کبھی کبھار پانچ سو درہم کی مالیت والی مخلوط رشیم کی بنی ہوئی منقش چادر استعمال فرمایا کرتے تھے۔ (4) عن عثمان بن ابی سلمان ان ابن عباس رضی اللہ عنہ اشتری ثوبا بالف درھم فلبسہ ‘‘ (حیاۃ الصحابۃ، باب انفاق الصحابۃ، ھدی النبی واصحابہ فی اللباس: ۱/۸۹۲ دارالکتاب العربی) وکان ابو حنیفۃ یرتدی برداء قیمتہ اربع مائۃ دینار وکان یامر اصحابہ بذلک وکان محمد یلبس الثیاب النفیسۃ ‘‘ (روح المعانی) ترجمہ: حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ چار سو دینار کی مالیت کی چادر پہنا کرتے تھے اوراپنے شاگردوںکو بھی عمدہ لباس کی نصیحت فرمایا کرتے تھے( یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگرد خاص) امام احمد محمد رحمہ اللہ نفیس کپڑے زیب تن فرماتے تھے۔ لباس میںعمدگی اللہ تعالیٰ کا عملی شکر ہے دراصل جب کسی بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو اس کو اس طرح رہنا چاہیے کہ دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے۔ یہ شکر کے تقاضوں میں سے ہے۔ اس لئے حضورﷺ نے مالک بن فضلہ رضی اللہ عنہ کو مال داری کے باوجود گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپﷺ نے پھر پوچھا: کس نوع کا مال ہے ؟ عرض کیا: مجھے اللہ تعالیٰ نے اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں ، گھوڑے اور غلام باندیاں(غرض ہر قسم کامال) دے رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:’’ فاذا اتاک اللہ مالا فلیر علیک اثر نعمۃ اللہ وکرامتہ ‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے تم کو مال سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام و احسان کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیے(سنن ابی دائود ، کتاب اللباس ، باب فی غسل الثوب: ۲/۷۔۲) خوش لباسی مستحب ہے ان ہی وجوہات کی بناء پر فقہاء کرام بھی عمدگی لباس کو ایک درجہ مستحب قرار دیتے ہیں، فتاویٰ شامی ہے: ’’ ومستحب: وھوالزائد لا خذ الزینۃ و اظہار نعمۃ اللہ، قال علیہ السلام، ان اللہ یحب ان یری اثر نعمۃ علی عبدہ و مباح وھو الثوب الجمیل للتزین فی الاعیاد والجمع ومجمامع الناس لا فی جمیع الاوقات لانہ صلف وخیلاء (شامی: ۵/۳۵۱)فتاویٰ عالمگیری میں ہے: علماء کرام کیلئے استغناء کی صورت بھی مناسب ہے: عادت الٰہیہ ہے کہ عوام کی دینی ترقی علمائے کرام سے مربوط و مستحکم تعلق ہی مضمر ہے،علمائے کرام کی صحبت و مجالست عوام الناس کے لئے نہایت ضروری ہے، اس باہمی تعلق کی خوشگواری کے سلسلے میںعلمائے کرام کی ظاہری صورت کی درستگی اور استغناء کی صورت بہت معاون رہتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’ انکم قادمون علی اخوانکم فاصلحوا رحالکم واصلحوا لباسکم حتی تکونوا کانکم شامۃ الناس (سنن ابی دائود، کتاب اللباس ، ماجاء فی اسبال الازار، الرقم: ۴۰۸۹)تم اپنے بھائیوںکے پاس جارہے ہو تو اپنی سواری اور لباس درست کرو ، تاکہ تم لوگوں میں ممتاز رہو۔ اسلام چاہتا ہے کہ علماء کرام اور دعوت کے میدان میں کام کرنے والے جب معاشرہ میں جائیں تو لوگوں کے درمیان نمایاں ہوں۔ لوگ ان کی طرف دیکھنا چاہیں۔ ان میں دوسروں کے لئے جاذبیت اور کشش ہوتاکہ وہ لوگوں کے دلوں گھر کرنے اور ان میں اپنی دعوت پہنچانے پر قادر ہوسکیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے، میرا دل چاہتا ہے کہ قراء حضرات صاف ستھرے سفید کپڑے پہنا کریں۔ (موطاء، الجامع، فی لبس الثیاب الجمال، الرقم: ۱۴۱۶) مدینہ منورہ کے علماء، صلحاء کی مستقل عادت امام مالک رحمہ اللہ یہ بیان کرتے ہیں: ’’ ماادرکت فقھاء بلدنا الا وھم یلبسون الثیاب الحسان(شعب الایمان، التاسع والثلانون من شعب الایمان وھو باب فی المطاعم…الرقم: ۵۹۵۰) میں نے مدینہ منورہ کے جتنے فقہاء کو دیکھا وہ سب عمدہ لباس پہنا کرتے تھے۔ ایک غلط فہمی آج کل یہ سننے میں آتا ہے کہ عصر حاضر کے علماء کرام صحابہ و اسلاف کی بودوباش کھوچکے ہیں۔ ان کے راستے سے ہٹ چکے ہیں ، بجائے پیوند زدہ لباس پہننے کے مہنگے اور عمدہ کپڑوں میں نظر آتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں علمی طبقے کیلئے غیر مانوس نہیں۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ’’ مولوی ملامتی فرقہ ‘‘ ہے، یعنی ساری دنیا کی ملامت ہر حال میں اس پر عائد ہوتی ہے۔ مثلاً: اگر مولوی بیچارہ مفلس و غریب ہو تو اس کے اوپر یہ ملامت ہے کہ یہ دنیا سے کٹا ہوا ہے اور اس کی اس بات کی فکر نہیں کہ کہاں سے کھائے گا اور اپنے بیوی بچوں کو کہاں سے کھلائے گا اور اگر مولوی کے پاس زیادہ پیسے آگئے تو پھر کہتے ہیں کہ یہ مولانا تو بڑے مالدار اور رئیس ہیں۔اگر مولوی دین کی بات سکھاتا ہے ، قرآن شریف پڑھاتا ہے تو اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ساری دنیا سے کٹ گیا ہے اور اگر کسی مولوی نے دنیوی علوم بھی حاصل کرلیے تو کہا جاتا ہے کہ ان کو چاہیے تھا کہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے لیکن یہ تو دنیا کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ (انعام الباری، کتاب الایمان، ۱/۳۶۲) بہر حال یہ بات طعنہ ہو یا خیر خواہی، لیکن دینی تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ (قل من زینۃ اللہ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وہ لوگ قابل عتاب و عذاب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک یا پاکیزہ اور لذیذ خوراک کو حرام سمجھیں، وسعت ہوتے ہوئے پھٹے حالوں گندہ پرا گندہ رہنا نہ کوئی اسلام کی تعلیم ہے، نہ کوئی اسلام میں پسندیدہ چیز ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں۔ سلف صالحین اور ائمہ اسلام میں بہت سے اکابر جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ اوربیش قیمت لباس استعمال فرماتے تھے، حضور نبی کریم ﷺ نے بھی جب وسعت ہوئی عمدہ سے عمدہ لباس بھی زیب تن فرمایا۔ اور رسول اکرم ﷺ اور سلف صالحین میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو عام حالات میں معمولی قسم کا لباس یا پیوندزدہ کپڑے استعمال کرنا منقول ہے اس کی دووجہ تھیں، ایک تو یہ کہ اکثر جوکچھ مال آتا ہے وہ فقراء ، مساکین اور دینی کاموں میں خرچ کر ڈالتے تھے، اپنے لئے باقی ہی نہیں رہتا تھا جس سے عمدہ لباس آسکے، دوسرے یہ کہ آپ مقتدائے خلائق تھے، اس سادہ اور سستی پوشاک کے رکھنے سے دوسرے امراء کو اس کی تلقین کرنا تھا تاکہ عام غرباء فقراء پر ان کی مالی حیثیت کا رعب نہ پڑے۔ اس طرح صوفیائے کرام جو مبتدیوں کو لباس زینت اور عمدہ لذیذ کھانوں سے روکتے ہیں، اس کا منشاء بھی یہ نہیں کہ ان چیزوں کو دائمی طور پر ترک کرنا کوئی کار ثواب ہے بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے کیلئے ابتداء سلوک میں ایسے مجاہدے بطور علاج و دوا کے تجویز کردئیے جاتے ہیں اور جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ خواہشات نفسانی پر قابو پالے کہ اس کا نفس اس کو حرام و ناجائز کی طرف نہ کھینچ سکے تو اس وقت تمام صوفیائے کرام عام سلف صالحین کی طرح عمدہ لباس اور لذیذ کھانوں کو استعمال کرتے ہیں اور اس وقت یہ طیبات رزق (پاکیزہ رزق ) ان کیلئے معرفت خداوندی اور درجات قرب میں رکاوٹ کے بجائے اضافہ اور تقرب کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ( معارف القرآن: ۳/۵۴۹اعراف:۷) زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کا یہ عمل عزیمت پر مبنی تھا کہ باوجود قدرت و استطاعت کی دنیاوی زیب و زینت کو اختیار نہیں کیا لیکن ان کے عمل سے یہ دلیل اخذ کرنا درست نہیں کہ آج کسی عالم و مذہبی رہنما کیلئے اچھے لباس کا استعمال جائز نہیں۔نبی کریمﷺ کی سیرت ہر افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ آپﷺ نے جہاں پیوند لگے کپڑے اور معمولی سوتی قسم کے لباس پہنے وہاں آپ ﷺدوسرے ملکوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پرریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس طرح بہت خوش نما چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ آپ ﷺ نے امت کو اپنے طرز عمل سے یہی تربیت دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے اور ریاء نمو اور فخر و غرور سے بچتے ہوئے عمدہ لباس بھی پہنا جاسکتا ہے جو علماء ، خطباء کے لئے موجودہ دور میں ایک درجہ بہتر ہے۔ (بشکریہ:ماہنامہ البلاغ) ہرحاجت اورجادو کے توڑ کیلئے (ف۔ن) سات مرتبہ درود شریف‘ ایک مرتبہ سورۂ یونس کی آیت 81،82‘ سات مرتبہ آیۃ الکرسی‘ سات مرتبہ سورۂ طارق‘ سات مرتبہ سورۂ اخلاص‘ سات مرتبہ سورۂ فلق‘ سات مرتبہ سورۂ ناس‘ ایک مرتبہ سورۂ بقرہ مکمل اور آخر میں سات مرتبہ درودشریف۔ طریقہ عمل: یہ عمل سات جمعۃ المبارک تک کرنا ہے۔ عصر سے مغرب تک ایک ہی جگہ بیٹھ کر پڑھنا ہے جب پڑھائی مکمل ہوجائے تو اس جگہ کی صفائی کریں جو مٹی آئے اسے دور پانی میں بہادیں۔ یہ عمل ہر حاجت کیلئے ہے اور خاص کرجادو کے اثرات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ دعا کو جلدی قبول کروانے کا عمل (مسز سیدہ حنا اعظم گیلانی) لوح نور: میرے نانا رحمۃ اللہ کے پاس ایک آدمی روزانہ آتا تھا‘ کہتا تھا حضرت میں روز یہاں آتا ہوں‘ آپ کی خدمت میں حاضری دیتا ہوں۔ آج میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کچھ ایسا خاص تحفہ دیں جو میرے دل میں ہو قبول ہوجائے۔ میرے نانا رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ تم میرے پاس تحفے کی لالچ میں آتے ہو کیا؟ تو وہ بولا نہیں حضرت آپ کے پیار کی وجہ سے آتا ہوں پر میرے دوست رشتے دار اکثر مجھے کہتے ہیں کہ اُس فقیر کے آستانے پر جاتا ہے تجھے کیا ملنا‘ اُس فقیر کے پاس سے بس اس لیے دل میں تحفے کا خیال آگیا۔ حضرت جی مجھے معاف کردیں۔ تب میرے نانا رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ نہیں کوئی نہیں‘ ہم تمہیں اللہ کے حکم سے ایک راز دیتے ہیں کہ جب بھی تم کچھ بھی اچھی نیت اور جائز حاجت میرے رب سے مانگو گے میرا رب وہ حاجت قبول فرمائے گا۔ وہ تحفہ پاراز لوح نور کے نام سے ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ نصف شب میں دو رکعت نماز ادا کریں اور ان 20 اسموں کو 1673 مرتبہ پڑھ کر دعا مانگیں ‘ قبول ہوگی۔ اول و آخر تین تین بار درود ابراہیمی پڑھ لیں۔ یَااَللہُ یَاسَمِیْعُ۔ یَاعَلِیْمُ۔ یَاسَرِیْعُ۔ یَاوَاسِعُ۔ یَاعَدْلُ۔ یَاعَلِیُّ۔ یَاعَظِیْمُ۔ یَامُتَعَالِ۔ یَاعَزِیْزُ۔ یَاعَفُّوُ۔ یَابَاعِثُ۔ یَافَعَّالاً لِّمَا یُرِیْدُ۔ یَارَفِیْعُ۔ یَامَعْبُودُ۔ یَانَافِعُ۔ یَامَانِعُ۔ یَابَدِیْعُ۔ یَاکَافِیُ ۔ یَارَءُوْفُاور اُس نے یہ عمل اتنا کیا روز کی عادت بنالی۔ آج وہ اللہ کا بندہ اپنا آستانہ بنا کے بیٹھا ہے اور یہ ہی عمل سب کو بتارہا ہے اور سب اس عمل سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ گمشدہ چیز کیلئے لاجواب عمل (رحمت علی‘ کراچی) ایک دوست اخبار کی دکان پر ملازم ہے جس سے موبائل کے دوکارڈ ایک شخص چوری کرکے لے گیا‘ وہ شخص پیسے کھلے کرانے گیا اوربھاگ گیا‘ اس نے مجھے بتایا کہ عزت کامسئلہ ہے اور پہلے ہی مالک شک کرتا ہے۔ میں نے اس کو دو وظیفے بتائے کہ ہزار مرتبہ انا للہ وانا الیہ راجعون عشاء کے بعد اول آخر درود شریف تین بار، پانچ بار یا سات مرتبہ پڑھو۔ اس نےر ات کو پڑھا تواگلے دن ملاقات ہوئی ۔ تو دوست کہنے لگا وہ شخص صبح آیا اور میرے دونوں کارڈ واپس کرگیا۔ چند مفید باتیں اور مجرب ٹوٹکے (شاہ فہد فاروق قریشی‘ بہاولپور) ٭ رات کو سونے سے پہلے اگر دونوں پاؤں کے تلوؤں پر سرسوں کے تیل کی مالش کرلی جائے تو ہاتھ پاؤں کی جلن ختم ہوجاتی ہے۔٭ نہانے کے بعد دونوں پاؤں پر ایک ایک بار پانی کا مگ ڈال لیا جائے تو پاؤں میں کبھی بدبو نہ آئیگی۔ ٭بیٹھ کر پانی یا کوئی مشروب پینے سے معدے میں کبھی درد نہیں ہوگا۔ ٭کھانا کھا کر اگر تھوڑا سا نمک چاٹ لیا جائے تو کھانا جلد ہضم ہونے کے علاوہ سینے میں جلن نہ رہے گی۔ ٭ نہانے سے پہلے اور بعد میں سر میں سرسوں کا تیل لگانے سے نہ بال گریں گےبلکہ بال سیاہ بھی رہیں گے۔ ٭ گرمی ہو یا سردی ہر حالت میں روزانہ رات کو سونے سے پہلے وضو کرکے سونے سے نیند جلد آتی ہے۔ ٭ ہرروز صبح ناشتے سے پہلے اگر 7 عدد کھجور یں کھانے کا معمول بنالیں اور ناشتہ ایک گھنٹہ بعد کریں تو تندرستی اور صحت برقرار رہتی ہے۔ ٭ صبح کے وقت مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت صاف اور منہ میں بدبو ختم ہوجاتی ہے۔ ٭ چاندنی راتوں میں مسلسل دو چار گھنٹے چاند کو دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک اور چمک پیدا ہونے کے علاوہ دل و دماغ میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 287 reviews.